سائفر کے معاملے سے دیگر ممالک کیساتھ تعلقات پر اثر پڑا: کیس کا تفصیلی فیصلہ

اسلام آباد: (دنیا نیوز) آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت نے بانی پی ٹی آئی اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔

سائفر کیس کا تفصیلی فیصلہ 77 صفحات پر مشتمل ہے جو خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے جاری کیا۔

تفصیلی فیصلے میں عدالت نے لکھا ہے کہ دونوں مجرمان نے خودساختہ پریشانیاں بنائیں، دوران سماعت ہمدردیاں لینے کے لیے بےیار و مددگار بننے کی کوشش کی، فیئر ٹرائل کا حق چالاک ملزم کے لیے نہیں۔

عدالت نے کہا کہ سائفر کو اپنے لیے استعمال کیا گیا جس کا اثر پڑا، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے بطور وزیراعظم اور وزیر خارجہ اپنے عہد کی خلاف وزری کی جس سے دوست ممالک کیساتھ تعلقات کو نقصان پہنچا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا، اعظم خان کا بیان سچائی پر مبنی تھا جس نے پراسیکیوشن کے دلائل کو مضبوط بنایا، سائفر کے ذریعے دیگر ممالک سے رابطے کے سسٹم کی سالمیت پر سمجھوتہ کیا گیا، سائفر کے معاملے سے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثر پڑا جس سے دشمنوں کو فائدہ ہوا۔

سیکرٹ عدالت کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے سائفر وزارت خارجہ کو واپس نہیں بھیجا، سائفر کیس 17 ماہ کی تحقیقات کے بعد دائر کیا گیا، 17 ماہ کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ مقدمہ تاخیر سے دائر نہیں کیا گیا، بطور وزیراعظم بانی پی ٹی آئی کی ذمہ داری تھی کہ سائفر واپس بھجواتے، وزارت خارجہ وزیراعظم سے سائفر واپس نہیں مانگ سکتی، اب تک سابق وزیراعظم نے سائفر واپس نہیں کیا۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ کیس سائفر سے متعلق ہے جو وزارت خارجہ کو واشنگٹن سے موصول ہوا، سائفر بہت حساس دستاویز ہے جس سے امریکا پاکستان کا ایک دوسرے پر بھروسا بھی جڑا ہے، 25 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے لیکن وکلاء صفائی غیر سنجیدہ دکھائی دیئے، 27 جنوری کو وکلاء صفائی غیر حاضر تھے، سرکاری وکیل موجود تھا۔

تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے سرکاری وکیل کے ساتھ بدتمیزی کی اور فائلیں پھینکیں، وکلاء صفائی عثمان گل، علی بخاری کے پہنچنے پر جرح کی تیاری کے لیے وقت دیا، جب جرح کا کہا تو وکلاء صفائی نے انکار کر دیا جس کے بعد سرکاری وکیل نے جرح کی، پراسیکیوشن نے ناصرف گواہان بلکہ دستاویزات پر مبنی ثبوت بھی پیش کیے، ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں جس سے ثابت ہو کہ پراسیکیوشن کے گواہان میں کمی رہ گئی۔

عدالت کے فیصلے میں کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے مختلف وکلاء آئے، درخواستیں دے کر تاخیری حربے اپنائے گئے، دونوں کے وکلاء نے قانون کا مذاق بنایا، سابق وزیراعظم اور شاہ محمود قریشی کا رویہ عدالت کے سامنے تھا، نقول فراہمی اور فرد جرم پر دونوں نے دستخط نہیں کیے جس سے نامناسب رویہ ثابت ہوا۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فیصلے میں لکھا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے 342 کے بیان دیئے لیکن دستخط نہ کیے، سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ سے ایسے رویے اور تاخیری حربوں کی توقعات نہیں تھیں، فئیر ٹرائل کیا، مجرمان کو جرح کا مکمل موقع دیا گیا لیکن جان بوجھ کر جرح نہیں کی گئی۔

اپنا تبصرہ لکھیں