تبت: دنیا کی چھت

لاہور: (بی بی یو ورلڈ نیوز اردو) تبت جنوب وسطی ایشیا کا بلند ترین علاقہ ہے، اسے ’’دنیا کی چھت‘‘(Roof Of The World ) بھی کہا جاتا ہے، یہ برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑوں اور دنیا کے بلند ترین سطح مرتفع پر مشتمل ہے، ماؤنٹ ایورسٹ جنوبی تبت سے بلندی کی طرف جاتا ہے۔

(Ka-Erh) کا علاقہ جو کہ مغربی تبت میں ہے دنیا کا بلند ترین علاقہ (Town) خیال کیا جاتا ہے، جس کی سطح سمندر سے بلندی 15 ہزار فٹ (4570 میٹر ) ہے، تبت کے شمال مشرق میں چین، مشرق میں سکم، بھوٹان، نیپال اور بھارت جبکہ مغرب میں کشمیر کا ضلع لداخ ہے، یہ سارا علاقہ بلند پہاڑوں اور ایک سرد اور برفیلے سطح مرتفع پر مشتمل ہے، اس کے جنوب مغرب میں کوہ ہمالیہ ہے۔

یہ ایک بلند سطح مرتفع ہے جہاں سے ایشیا کے بڑے دریا نکلتے ہیں جو چین اور پاک و ہند کی طرف آتے ہیں ان میں برہم پترا بنگلہ دیش سے ہو کر خلیج بنگال میں جا گرتا ہے، تبت میں اسے ’’تسانگیو‘‘ کہتے ہیں، اس دریا کے شمال میں کئی نمکین جھیلیں ہیں، دریائے سندھ، میکانگ، سالوین اور یانگ ژی دریا بھی تبت کی طرف سے آتے ہیں۔

تبت کو دنیا کی چھت اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ زمین کا انتہائی بلند مقام ہے، انسانی آبادی اس کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور دنیا ’’کے ٹو‘‘ اور ’’ماؤنٹ ایورسٹ‘‘ میں سمٹ کر رہ جاتی ہے، تبت 1950ء تک آزاد ملک تھا پھر چین کی فوجیں یہاں داخل ہوئیں، 14 ویں دلائی لامہ بھارت میں جلاوطن ہوئے اور تبت چین کا حصہ بن گیا تاہم لوگ اپنے ملک کو آزاد سمجھتے ہیں، یہ 73 سال گزرنے کے باوجود چین کے تسلط کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔

آپ دنیا کے نقشے میں تبت کو تلاش کریں تو یہ آپ کو ہمالیہ کے انتہائی اوپر ملے گا، اس کی ایک سرحد نیپال، دوسری بھوٹان، تیسری اکسائی چین کے ذریعے بھارت اور چوتھی سنکیانگ سے ہوتی ہوئی پاکستان سے ملتی ہے، یہ علاقے ماضی میں تبت کا حصہ ہوتے تھے، بھارت کا لداخ بھی تبت میں تھا۔

نیپال کے ہمالیائی پہاڑ بھی بھوٹان کا ایک تہائی حصہ بھی اور موجودہ پاکستان کے تبتی علاقے بھی، یہ ماضی میں ایک عظیم بودھ ریاست تھی، مہاتما بدھ 480 قبل مسیح میں پیدا ہوئے، ان کی تعلیمات بھارت اور پاکستان تک محدود رہیں لیکن بودھ مت نے مضبوط ریاست کی شکل تبت میں پائی۔

تبت کے علاقے میں وسیع سبزے کے میدان اور جنگلات بھی پھیلے ہیں، اس علاقے میں بارش کم ہوتی ہے اس لیے کھیتی باڑی صرف دریاؤں کے کناروں کے قریب ہوتی ہے جہاں پھل، جو اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں، یہاں تقریباً 5 ہزار مختلف قسم کے پودے اور درخت اُگے ہیں۔ یاک (Yalk) یہاں کا پالتو جانور ہے، اس کے علاوہ ہرن، ٹائیگر ، ریچھ، بندر، پانڈا اور گھوڑے بھی پائے جاتے ہیں۔

یہاں سیکڑوں جھیلیں اور ندیاں قدرت کے حسن کو دو بالا کرتی ہیں، تبت کا کل رقبہ 12 لاکھ 21 ہزار 600 مربع کلومیٹر (4,71.662 مربع میل) اور آبادی تقریباً 20 لاکھ کے قریب ہے جن میں 96 فیصد تبتی اور باقی چینی ہیں، تبت کی تجارت پہلے ہندوستان کے ساتھ تھی مگر جب سے اس پر چین کا قبضہ ہوا ہے یہ تجارت بند ہوگئی ہے۔

1957ء میں چین نے یہاں ایک سڑک تعمیر کرائی جو چین اور تبت کو ملاتی ہے، تبت کا دارالحکومت لہاسہ (Lhasa) ہے، 7 ویں صدی عیسوی کے دوران تبت ایک طاقتور بادشاہت کی شکل میں تھا، بھارت کی طرف سے بدھ مت کو یہاں فروغ حاصل ہوا اور لہاسہ شہر کی بنیاد رکھی گئی، 17 ویں صدی میں دلائی لامہ تبت کا حکمران بن گیا۔

18 ویں صدی کے شروع میں یہ چین کے کنٹرول میں چلا گیا، یہ علاقہ کئی دفعہ چین کے قبضہ میں آیا اور کئی بار آزاد ہوا، منگول بھی اس پر قابض رہے، 18 ویں صدی میں پہلی بار ہندوستان کی برطانوی حکومت نے تبت کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کی مگر 1792ء کی گو رکھا جنگ کے باعث انگریز اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔

19 ویں صدی میں تبت، لداخ (کشمیر) میں شامل کر دیا گیا، 1890ء میں سکم نے برطانیہ کے ساتھ الحاق کر لیا، 1893ء میں انگریزوں نے وہاں اپنا تجارتی مرکز قائم کیا، تبت کے لوگ اس کو سخت ناپسند کرتے تھے، آخر 1904ء میں سرفرانس بینگ ہسبنڈ کی سربراہی میں پہلا برطانوی فوجی مشن لہا سہ پہنچا، جس نے تبتیوں کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیا اور انگریز وہاں ایک تجارتی مرکز قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

اپنا تبصرہ لکھیں