کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس دارفانی سے کوچ کر گئے

ویٹی کن سٹی: (بی بی یو ورلڈ نیوز اردو) کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس دارفانی سے کوچ کر گئے۔

ویٹیکن سٹی نے پیر کو اعلان کیا ہے کہ رومن کیتھولک چرچ کے پہلے لاطینی امریکی رہنما پوپ فرانسس 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں اور اپنے 12 سالہ پوپ کے دور میں مختلف بیماریوں کا شکار رہے۔

پوپ فرانسس طویل بیماری کے بعد چند روز قبل ہی صحت یاب ہو کر ہسپتال سے فارغ ہوئے تھے، اتوار کو انہوں نے عیسائیوں کے مذہبی تہوار ایسٹر کے موقع پر ملاقاتیں بھی کی تھیں۔

ابتدائی زندگی

پوپ فرانسس کا اصل نام “خورخے ماریو بیرگولیو” تھا، وہ ارجنٹینا کے شہر بیونس آئرس میں پیدا ہوئے، کیتھولک چرچ کے روایتی مزاج سے ہٹ کر وہ پوپ بننے کے بعد پہلی بار چرچ کی فضاؤں میں ایک ایسی روشنی لے کر آئے جس نے اسٹیبلشمنٹ کے اندھیروں میں لرزش پیدا کر دی۔

2013 میں رومن کیتھولک چرچ کے سربراہ بننے والے پوپ فرانسس اس سے پہلے ارجنٹینا کے دارالحکومت بیونس آئرس کے آرچ بشپ تھے اور اس دوران وہ اپنی سادگی، عوامی زندگی اور خدمت کے جذبے کے لیے پورے براعظم میں مشہور تھے، اپنے 15 سالہ اسقفی عہد (1998-2013) کے دوران انہوں نے زیر زمین ریل اور بسوں میں سفر کیا تاکہ عام لوگوں کے قریب رہ سکیں اور ان کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔

وہ عالیشان رہائش گاہوں کے بجائے ایک عام اپارٹمنٹ میں رہتے تھے اور خود اپنا کھانا بنایا کرتے تھے، ان کی یہ عاجزی اور سادگی بعد میں بھی برقرار رہی جب وہ پوپ منتخب ہوئے اور انہوں نے ویٹی کن کے روایتی شاہانہ طرزِ زندگی کو اختیار کرنے کے بجائے سادہ طرزِ زندگی برقرار رکھا۔

عاجزی سے عظمت تک کا سفر

11 مارچ 1958 کی ایک صبح خورخے ماریو برگولیو نے ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے ان کی پوری زندگی کا رخ بدل دیا، اس دن وہ جیسوئٹ سوسائٹی کے نوآموز (Novitiate) بن گئے، جیسوئٹ کیتھولک فرقے کے اندر ایک تنظیم ہے جو خدمتِ خلق کے ذریعے دنیا بھر میں مذہب کی تبلیغ پر یقین رکھتی ہے۔

ان کی شخصیت میں سادگی اور خدمت کا جذبہ ابتدا ہی سے نمایاں تھا، وقت کے ساتھ ان کا تعلیمی سفر بھی جاری رہا، 1963 میں وہ چلی گئے جہاں انہوں نے انسانی علوم کی تعلیم مکمل کی، جب وہ واپس ارجنٹینا لوٹے تو انہوں نے کولیجیو ڈی سان خوسے سے فلسفے کی ڈگری حاصل کی، علم کے اس سفر نے ان کے خیالات کو مزید نکھارا اور انہیں ایک دانشور اور رہنما بننے کی بنیاد فراہم کی۔

ان کے علم، حکمت اور قیادت کی صلاحیتوں کو جلد ہی پہچان لیا گیا، 1973 میں انہیں جیسوئٹس کے ارجنٹینا میں صوبائی سربراہ کے طور پر منتخب کیا گیا جہاں وہ اگلے 6 سال تک اس عہدے پر فائز رہے، ان کے فیصلے اور قیادت نے انہیں ایک مضبوط اور عملی رہنما کے طور پر متعارف کرایا۔

چرچ میں اعلیٰ ترین مقام

1992 میں پوپ جان پال دوم نے برگولیو کو بیونس آئرس کا معاون بشپ مقرر کیا، چرچ کے انتظامی معاملات میں ان کی گہری بصیرت اور خدمت کا عزم انہیں تیزی سے آگے لے جا رہا تھا۔

تین جون 1997 کو انہیں بیونس آئرس کا کوآجوٹر آرچ بشپ بنایا گیا یعنی وہ اس مقام کے اصل آرچ بشپ کے متوقع جانشین بن گئے، جلد ہی وہ دن بھی آیا جب انہیں چرچ کی مکمل قیادت سنبھالنی تھی۔

28 فروری 1998 کو آرچ بشپ کواراسینو کے انتقال کے بعد برگولیو بیونس آئرس کے آرچ بشپ ارجنٹینا کے پرائمیٹ اور ایسٹرن رائٹ کے ماننے والوں کے روحانی رہنما بن گئے، ان کا منصب اب پہلے سے کہیں زیادہ وسیع اور بااثر ہو چکا تھا۔

تدریس اور مطالعہ

1964 سے 1966 تک خورخے ماریو برگولیو سانتافے اور بیونس آئرس میں ادب اور نفسیات کے استاد رہے، تعلیم و تدریس ان کے لیے صرف ایک پیشہ نہیں بلکہ ایک مشن تھا، ان کا ماننا تھا کہ علم کی روشنی سے ہی حقیقی خدمت کا راستہ ہموار ہوتا ہے لیکن ان کا سفر یہیں نہیں رکا۔

1967 میں وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے واپس کولیجیو ڈی سان خوسے پہنچے اور 1970 میں وہاں سے تھیولوجی کی ڈگری حاصل کی، ان کی علمی و روحانی استعداد اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔

مذہبی خدمات

13 دسمبر 1969 کو آرچ بشپ رامون جوسے کاسٹیانو نے برگولیو کو پادری مقرر کیا، اس دن انہوں نے یہ عہد کیا کہ وہ اپنی زندگی محتاجوں، بے سہارا افراد اور عام لوگوں کی خدمت میں وقف کر دیں گے۔

21 فروری 2001 کو پوپ جان پال دوم نے انہیں کارڈینل کے درجے پر فائز کیا، یہ ان کے لیے نہ صرف ایک اعزاز تھا بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی، یہی وہ سفر تھا جو انہیں بعد میں پوری دنیا کے پہلے جیسوئٹ پوپ کے منصب تک لے گیا، ان کی کہانی عاجزی، سادگی، اور غیر متزلزل عزم کی ایک روشن مثال ہے۔

پوپ بننے کا سفر

2005 خورخے ماریو برگولیو پوپ بینیڈکٹ شانزدہم کے انتخاب کے لیے ہونے والی کارڈینلز کی خفیہ مجلس کونکلیو میں شریک ہوئے، اس وقت وہ ایک نمایاں امیدوار تو تھے لیکن اکثریت نے بینیڈکٹ شانزدہم کو منتخب کیا۔

فروری 2013 کو پوپ بینیڈکٹ شانزدہم نے صحت کی وجوہات کی بنا پر پوپ کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا جو کہ جدید دور میں ایک غیر معمولی واقعہ تھا، اس کے بعد ویٹیکن میں ایک نیا کونکلیو بلایا گیا جہاں دنیا بھر سے جمع ہونے والے کارڈینلز نے نیا پوپ منتخب کرنا تھا۔

13 مارچ 2013 کو کئی مرحلوں کی ووٹنگ کے بعد برگولیو کو سپریم پونٹیف منتخب کیا گیا، وہ پہلے لاطینی امریکی، پہلے جیسوئٹ اور پہلے غیر یورپی پاپائے اعظم بنے، انہوں نے اپنا نام پوپ فرانسس رکھا جو کہ سینٹ فرانسس آف اسیسی سے متاثر تھا جو سادگی اور غریبوں کی خدمت کے لیے مشہور تھے۔

پوپ بننے کے بعد انہوں نے ویٹیکن کی روایتی شاہانہ رہائش گاہ کے بجائے ایک سادہ اپارٹمنٹ میں رہنے کو ترجیح دی اور چرچ کو مزید عوامی اور سماجی خدمت کی طرف مائل کرنے پر زور دیا۔

بین المذاہب ہم آہنگی کے علمبردار

پوپ فرانسس بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے میں نمایاں کردار ادا کر تے رہے ہیں۔ وہ اپنی پوری زندگی مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے، رواداری اور امن کے قیام پر زور دیتے رہے، ان کے دورِ پوپائی میں کئی اہم اقدامات کیے گئے جو بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے تاریخی حیثیت رکھتے ہیں۔

2019 میں انہوں نے الازہر کے شیخ احمد الطیب کے ساتھ ’انسانی بھائی چارے کے اعلامیے‘ پر دستخط کیے جو اسلام اور مسیحیت کے درمیان امن و تعاون کو فروغ دیتا ہے، 2021 میں وہ عراق گئے اور وہاں انہوں نے آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کی جو اہل تشیع کے بڑے رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔

وہ یہودی، ہندوؤں، بدھ مت کے پیروکاروں اور دیگر مذاہب کے نمائندوں سے بھی مسلسل مکالمہ کرتے رہے ہیں اور عالمی امن کے لیے تعاون پر زور دیتے رہے۔

پوپ فرانسس نے سویڈن میں قرآن پاک کی بےحرمتی کے واقعات کی بھی بھر پور مذمت کی تھی اور اسے ’آزادی اظہار رائے‘ کے نام پر نفرت انگیز عمل قرار دیا تھا۔

متحدہ عرب امارات کے اخبار میں شائع ہونے والے انٹرویو میں پوپ فرانسس نے کہا تھا کہ ’کوئی بھی کتاب جسے مقدس سمجھا جائے اس کا احترام ان لوگوں کے لیے کیا جانا چاہیے جو اس پر یقین رکھتے ہیں۔

پوپ فرانسس نے کہا تھا کہ مجھے ان (قرآن مجید کو نذر آتش کرنے) کی حرکتوں پر غصہ آیا اور نفرت محسوس ہوئی۔‘

انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’آزادی اظہار کو کبھی دوسروں کو حقیر سمجھنے کے ذریعے کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے اور ایسا کرنے کی اجازت دینا قابل مذمت ہے جسے مسترد کیا جاتا ہے۔

پوپ نے ویٹیکن کی دولت جاہ و جلال اور طاقت کی دنیا کو خیر باد کہہ کر عام انسانوں کے درمیان بیٹھنا پسند کیا، اس نے چرچ کے نچلے طبقوں، پسے ہوئے لوگوں اور باہر دھکیلے گئے انسانوں کی آواز بننے کو اپنا منصب سمجھا۔

وہ ایک ایسی دنیا کا داعی تھا جہاں عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے ہیں، اس نے ہم جنس پرست افراد کے لیے نرم الفاظ استعمال کیے، اس نے موسمیاتی بحران کو ایک مذہبی اور اخلاقی مسئلہ قرار دیا، وہ مہاجرین کے ساتھ بیٹھا، ان کے پاؤں دھوئے ان کے بچوں کو گود میں لیا اور کہا کہ مذہب صرف عبادت نہیں یہ عمل ہے، یہ انصاف ہے، اس نے دنیا کو بتایا کہ گرجا ہو یا مسجد جب تک وہ ظلم کے خلاف آواز نہ اٹھائیں وہ خاموشی کے مجرم ہیں۔

جب دنیا کی سپر پاورز خاموشی کی دبیز چادر اوڑھے غزہ کی مٹی پر بکھرے معصوم بچوں کے جسموں سے نظریں چرا رہی ہوں، جب عالمِ اسلام کے حکمران بے حسی کی چپ میں اپنی کرسیوں کو مضبوطی سے تھامے بیٹھے ہوں ایسے میں ایک بوڑھا پادری جس کے جسم پر بیماریوں کے نشان ہیں، جسے بار بار ہسپتال لے جایا جاتا ہے وہ اپنی تھرتھراتی آواز میں انسانیت کا مقدمہ لڑ رہا تھا وہ پوپ فرانسس ہی تھا۔

اس نے کہا کہ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ جنگ نہیں قتل عام ہے، یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے، یہ الفاظ کسی جلے ہوئے کیمپ میں پناہ گزین کسی فلسطینی کے نہیں تھے، نہ ہی یہ کسی انقلابی شاعر کے قلم سے نکلے مصرعے تھے، یہ ایک ایسے مذہبی ادارے کے سربراہ کے الفاظ تھے جو صدیوں سے طاقتوروں کے ساتھ کھڑا رہا ہے، یہ ویٹیکن کے اندر سے آنے والی وہ صدا تھی جو صدیوں کے جمود کو توڑ رہی تھی۔

پھر جب فلسطین کی زمین پر بمباری ہوئی، جب ہسپتالوں کو نشانہ بنایا گیا، جب بچوں کے جسم ملبے تلے دب گئے تو پوپ فرانسس نے اپنے سادہ سے دفتر سے وہ بات کہی جو بڑے بڑے صدر نہ کہہ سکے، اس نے کہا ’’ یہ جنگ نہیں، یہ قتل عام ہے، یہ انسانیت کی توہین ہے۔‘‘

جب مغربی میڈیا اسرائیل کے بیانیے کو آگے بڑھا رہا تھا جب یورپی حکومتیں دفاع اسرائیل کو اپنا حق سمجھ رہی تھیں جب عالمی ادارے بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے تب اس نے انسانیت کی طرفداری کا علم اٹھایا، وہ چاہتا تو خاموش رہ سکتا تھا۔

وہ کہہ سکتا تھا کہ یہ ایک پیچیدہ تنازع ہے کہ ہم فریق نہیں بن سکتے کہ ہمیں غیر جانبدار رہنا چاہیے لیکن اس نے غیرجانبداری کو منافقت قرار دیا، اس نے کہا کہ ظلم کے وقت خاموش رہنا ظالم کا ساتھ دینا ہے، یہ وہ تعلیم ہے جو ہر مذہب دیتا ہے لیکن کم ہی لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔

ان کو زندہ رہنا چاہیے تھا کیونکہ ان جیسے مذہبی رہنما کی دنیا کو ضرورت ہے اس لیے نہیں کہ وہ ایک مذہبی رہنما تھے بلکہ اس لیے کہ وہ ضمیر کی آواز تھے، ایسی آوازیں اب کم رہ گئی ہیں، ایسی آوازیں جو نہ رنگ دیکھتی ہیں نہ قوم نہ مذہب نہ سرحد، جو صرف انسان دیکھتی ہیں اور جو ہر انسان کے لیے انصاف مانگتی ہیں ان کا زندہ رہنا معاشرے کیلئے بہت ضروری تھا۔

اپنا تبصرہ لکھیں