اسلام آباد: (بی بی یو ورلڈ نیوز اردو) چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود نے کہا ہے کہ بڑے بڑے صوبوں کے ہوتے ہوئے موجودہ سسٹم ٹھیک نہیں ہو سکتا، نظام اتنا بوسیدہ ہوگیا ہے کہ اس میں کام کرنا ممکن نہیں، نئے صوبوں کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
رفاہ یونیورسٹی اسلام آباد میں ایپ سپ کے زیراہتمام آگاہی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین پنجاب گروپ میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے سکول نہیں جا پا رہے، جو کہ دنیا میں بہت بڑی تعداد ہے، ایک سروے کے مطابق 70 فیصد ایسے بچے ہیں جو ساتویں کلاس میں ہیں لیکن دوسری جماعت کی کتاب نہیں پڑھ سکتے۔
انہوں نے کہا کہ آپ اس ایک فیصد آبادی کا حصہ ہیں جو یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں، 44 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں، ہم نے اس ملک میں مشکل وقت گزارا اور گزار رہے ہیں، آج ہم نے اپنے آئندہ 20 سالوں پر بات کرنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی سالوں بعد ایسے نوجوان سامنے ہوں گے جو کام کرنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے، پیروں کی بیڑیاں آپ کو آگے بڑھنے ہی نہیں دیں گے، ڈھائی سو سال پہلے جمہوریت نہیں تھی، عام آدمی ہی ٹیکس دیتا اور جنگیں لڑتا تھا، لوگوں میں احساس پیدا ہوا کہ جنگیں ہم لڑتے ہیں اور ٹیکس ہم دیتے ہیں، حکمرانی ایک خاندان کرتا ہے، آہستہ آہستہ عوام کی طاقت بڑھتی اور حکمرانوں کی کم ہوتی گئی۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ پبلک و سوشل ویلفیئر، اکنامک ویلفیئر، سیاسی ویلفیئر کیلئے حکومت قائم ہونی چاہیے، آپ نے پبلک ویلفیئر عوام کی خدمت کیلئے کرنی ہے، ہم نے اپنا دفاع اچھا بنا لیا لیکن پبلک ویلفیئر میں فیل ہیں، ہم پبلک ویلفیئر پر کام نہیں کرسکے۔
80 سال میں بہت سی پارٹیاں اور حکمران آئے لیکن فرق نہیں پڑا
میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ 80 سال میں بہت سی پارٹیاں اورحکمران آئے لیکن فرق نہیں پڑا، ہیومن انڈیکس کو دیکھیں گے تو پتہ چلے گا کہ ہم کتنی بری طرح فیل ہوئے، ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے ممالک ہائی انکم کنٹریز (High Income Countries) بن چکے ہیں یا بننے جا رہے ہیں، ہم ہائی انکم کنٹریز میں نظر نہیں آ رہے۔
انہوں نے کہا کہ سروے میں معلوم ہوا خراب گورننس ہمارے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے، سروے میں ثابت ہوا کہ ہمارے ادارے کمزور ہیں، ہمارے ملک میں سیاسی ترجیحات کی وجہ سے ڈویلپمنٹ ہو رہی ہے، جہاں ڈویلپمنٹ ہونی چاہیے وہاں نہیں ہو رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں خود 8 سال لاہور کا ناظم رہا ہوں، ہم نے دیکھا سکول ایسی جگہ بنایا جاتا ہے جہاں آبادی موجود ہی نہیں، پنجاب گورنمنٹ نے بہت سارے سکولوں کو پرائیویٹ این جی اوز کے حوالے کیا ہے، اس وقت حکومت 4 ہزار 400 روپے ہر بچے پر ماہانہ خرچ کر رہی ہے، 4 ہزار 400 روپے اچھے خاصے پرائیویٹ سکول کی فیس بھی نہیں۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے بتایا کہ 2001 کے بعد کوئی بھی ٹیچر میرٹ کے بغیر بھرتی نہیں ہوا، سرکاری سکولوں کی عمارتیں بھی بہترین ہیں، ساری سہولیات ہونے کے باوجود بھی سرکاری سکولوں میں ٹھیک پڑھائی نہیں ہو رہی، سرکاری سکول میں وہ بچہ جاتا ہے جو پرائیویٹ میں نہیں پڑھ سکتا۔
میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ یہاں قتل کے کیس کا فیصلہ ہونے میں 16 سے 18 سال لگ جاتے ہیں، قتل کے کیس میں قاتل اور مقتول کے خاندان برباد ہوجاتے ہیں، سنا ہوگا کہ قتل کے مجرم کو بری کر دیا گیا بعد میں پتہ چلا اس کو تو پھانسی بھی ہوگئی۔
پنجاب اگر ملک بنے تو دنیا کا ساتواں یا آٹھواں بڑا ملک بنے گا
انہوں نے بتایا کہ یہ سب شاید کسی ایک شخص یا پارٹی کا قصور نہیں، ہمارا سسٹم اتنا بوسیدہ ہوگیا ہے کہ اس میں کام کرنا ہی ممکن نہیں ہے، اس نظام اور بڑے بڑے صوبوں کے ہوتے ہوئے سسٹم ٹھیک نہیں ہوسکتا، پنجاب اس وقت 13 کروڑ کا صوبہ ہے، پنجاب اگر ملک بنے تو دنیا کا ساتواں یا آٹھواں بڑا ملک بن جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا اتنا بڑا رقبہ ہے کہ حکومتی سہولت پہنچانا ممکن نہیں، ہم نے پچھلے 80 سال میں صرف 5 کیپیٹل سٹی ڈویلپ کئے، فیصل آباد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے، وہاں کوئی ایک اچھا سکول یا ہسپتال نہیں ملے گا۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ سندھ میں کراچی سے باہر کوئی سہولت نہیں ملے گی، ہر سال لاہور کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے، لاہور میں ہر سال ہجرت بہت زیادہ ہوتی ہے، ہمارے پاس صرف 4 صوبے ہیں، جن ممالک کی آبادی ہمارے قریب ہیں ان میں صوبوں کی تعداد 30 سے اوپر ہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم آزادی کے وقت 3 کروڑ 30 لاکھ کی آبادی کا ملک تھے، پنجاب صرف 2 کروڑ کی آبادی کا صوبہ تھا، آج پنجاب کی آبادی 12 کروڑ 75 لاکھ ہو چکی ہے، کراچی سمیت سندھ میں صرف 60 لاکھ کی آبادی تھی، آج سندھ کی آبادی ساڑھے 5 کروڑ سے زیادہ ہوگئی ہے، خیبرپختونخوا کی آبادی بڑھ کر 48 ملین ہے، بلوچستان میں صرف 11 لاکھ کی آبادی تھی، جو اب 15 ملین کے قریب ہے۔
صوبوں کو توڑنے کی بات نہیں کر رہے، چاہتے ہیں نئے صوبے بنیں
میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہے دنیا کیا کر رہی ہے اور ہم کس طرف جا رہے ہیں، ہم بار بار کیوں فیل ہو رہے ہیں وہ سب باتیں سامنے رکھیں، ہم صوبوں کو توڑنے کی بات نہیں کر رہے، کہہ رہے ہیں کہ نئے صوبے بنانے چاہئیں، ہم کہہ رہے ہیں آپ ہر ڈویژن کو نیا صوبہ بنا دیں، ایک نیا وزیراعلیٰ ہر صوبے میں بیٹھے بنیادی سہولیات دے اور روزگار پیدا ہو، جب حکومت ذمہ داری پوری کرے گی تو آپ کو اپنے علاقے میں روزگار ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ ڈویژن کو صوبہ بنانے سے ڈویژن میں کوئی باؤنڈری یا وسائل کی کمی کا سامنا نہیں ہوگا، ہم کہہ رہے ہیں اس ہی کمشنر کو چیف سیکرٹری بنا دیں، اسی آر پی او کو آئی جی بنا دیں، صوبے زیادہ بنانے سے دوسرے ممالک کو پتہ چلے گا کہ یہ بھی پاپولر ڈیمانڈ ہے، ہم لوکل گورنمنٹ کی اس طرح بات نہیں کرتے جیسے کرنی چاہیے۔
چیئرمین پنجاب گروپ کا کہنا تھا کہ نئے صوبے بنانے کی تحریک مشترکہ ہوگی تو کامیاب بھی ہوگی، 100 بار اس چیز کو دہراؤں گا کہ کوئی تعلیمی ادارہ یہ کاوش نہیں کر سکتا، ہم مل کر کریں گے تو یہ کام ہوگا، یہ خرابی بڑھ رہی ہے کم نہیں ہوگی، سب کو مل کر یہ کاوش کرنا ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں ایک چائے بیچنے والا وزیراعظم بن گیا، نریندر مودی نے پہلے گجرات میں لوگوں کیلئے کام کیا تھا، بھارت میں نریندر مودی نے جب مہم شروع کی تو پورا کارپوریٹ انڈیا اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا، بی جے پی اکثریت پارٹی بن گئی اس کو اتحادیوں کو ضرورت ہی نہیں پڑی، جس نے اپنے عوام کیلئے کام کیا وہ وزیراعظم بن گیا، بے شک ہمیں نریندرمودی برا لگتا ہوگا لیکن وہ وہاں مقبول تو ہے۔
ہمیں اپنے نوجوانوں کو راستہ دکھانا ہے
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے نوجوان ہی پاکستان کی اصل طاقت ہیں، ہمیں اپنے نوجوانوں کو راستہ دکھانا ہے، ایک فیصد نوجوان ہی یونیورسٹی تک پہنچتے ہیں، ایک فیصد ہی ہوتے ہیں جو قوم کو لیڈ کرتے ہیں، ہم نوجوانوں کو بتانا چاہ رہے ہیں کہ آپ ہی ملک کی طاقت ہیں۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ اس ملک میں ہر شعبے میں ایک ایلیٹ موجود ہے، یہاں کی ایلیٹ ایسے رہ رہی ہے کہ سویٹزرلینڈ کے لوگ بھی نہیں رہ رہے، آج تک ہمارے لیڈرز آرگینک سسٹم یا عوام سے اٹھ کر نہیں آئے، جب آپ ہر ڈویژن کو صوبہ بنائیں گے تو 33 وزرائے اعلیٰ کام کر رہے ہوں گے، آپ کے پاس ان 33 وزرائے اعلیٰ میں سے کچھ تو کام کرنے والے ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ دنیا میں چند ایک کے علاوہ لیڈرشپ مڈل کلاس سے ہی آتی ہے، ہم نے اسی ملک میں ہی رہنا ہے اور زندگی گزارنی ہے، وہ قوم ترقی کرتی ہے جو 20 سال بعد آنے والی مشکل کا آج ادراک کرتی ہے۔
میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ تاریخ پڑھیں تو پشاور ایک زمانے میں پنجاب کا حصہ تھا، ملتان بھی ایک صوبہ تھا، یہ ہزاروں سال پرانی باتیں ہیں، کابل بھی ایک زمانے میں پنجاب کا حصہ تھا، ہم واحد فیڈریشن ہیں جو 51 فیصد ہیں، تین صوبے مل کر بھی پنجاب سے چھوٹے ہیں، آپ 51 فیصد ہونے پر وسائل بھی اتنے ہی لیتے ہیں جس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
بلوچوں سے زیادتی ان کے اپنے کر رہے ہیں
انہوں نے کہا کہ بلوچوں سے زیادتی پنجاب نہیں، ان کے اپنے کر رہے ہیں، این ایف سی میں زیادہ فنڈز صوبوں کو مل رہے ہیں، وفاق کے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں، بلوچستان کے 5 صوبے بن جائیں تو سب کو برابر کے فنڈز ملنے شروع ہوجائیں گے اور کوئٹہ سے شکایت ختم ہو جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے بارے میں ہر کوئی کہتا تھا اس شہر کا مستقبل دبئی جیسا بنے گا، ہم نہیں کر سکتے دبئی نے کر کے دکھا دیا، دبئی نے اپنے آپ کو دنیا کا حب بنا کر دکھا دیا، ہمارے اندر پوٹینشل موجود تھا لیکن خود کو فیل کر دیا۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ پنجاب حکومت بچوں کو ای وی بائیکس، لیپ ٹاپس دے رہی ہے، سیلاب میں دن رات کام کر رہی ہے، حکومت کی محنت اور نیت میں فرق نہیں، لیکن حجم بہت بڑا ہونے کی وجہ سے آپ کو ایک سال بعد کارکردگی نظر نہیں آئے گی۔
ہم نوجوانوں کیلئے ہی بات کر رہے ہیں سیاست نہیں
انہوں نے کہا کہ ہم نوجوانوں کیلئے ہی بات کر رہے ہیں، ہم سیاست نہیں کر رہے، 20 سال بعد شاید ہم نہ ہوں لیکن نوجوان اس تحریک کو لیکر چلیں گے، پارٹیوں کو اس کا پتہ چلنا چاہیے کہ نوجوانوں میں یہ تحریک مقبول ہے، اس تحریک کے بغیر ووٹ نہیں ملنا۔
میاں عامر محمود کا کہنا تھا کہ بیرون ملک کتنے فیصد نوجوان چلے جائیں گے، باقی تو یہیں رہیں گے، ہم کہہ رہے ہیں صوبہ چھوٹا کریں، مڈل کلاس سے لیڈر شپ کو آگے آنے کا موقع ملے، بڑے صوبے میں حکومت کے پاس آپ کی بات سننے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔
انہوں نے بتایا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں یونیورسٹی میں نصاب تبدیل ہوتا رہتا ہے، پنجاب میں 7 فیصد ایسے سکول ہیں جہاں صرف ایک استاد ہے، سندھ میں 45 فیصد ایسے سکول ہیں جہاں ایک ٹیچر ہے، کے پی میں 11 فیصد، بلوچستان میں 41 فیصد، گلگت بلتستان میں 37 فیصد اور اسلام آباد میں 1.6 فیصد ایسے سکول ہیں جہاں صرف ایک استاد ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حصول آزادی کے رہنماؤں کی زندگی کو پڑھا کریں، اس ملک کو بنانے میں لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دیں، اس ملک کی ہم نے قدر نہیں کی اور ہم سے پہلے والوں نے بھی نہیں کی، ہم چاہتے ہیں آپ نوجوان اس ملک کی قدر کر لیں، اگر آپ قدر نہیں کریں گے تو ہندوستان میں دیکھ لیں کہ وہاں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
چیئرمین پنجاب گروپ نے کہا کہ آپ اس سوچ سے جان چھڑا لیں کہ اسی سسٹم میں آنا ہے اور اسی کے مطابق چلنا ہے، سسٹم آپ لوگ ہیں، آپ نے ہی سسٹم بنانا ہے، آپ نے سوچنا ہے کہ ملک کیسے بہتر ہو، حل یہی ہے کہ صوبے چھوٹے ہوں، انفرادی طور پر ہر ایک شخص کو خود سوچنا پڑے گا، ایسا ممکن نہیں کہ سب کو ایک جگہ اکٹھا کر کے بولیں یہی کرنا ہے۔
جب تک خود تبدیلی نہیں چاہیں گے پیروں کی بیڑیاں مزید مضبوط ہوجائیں گی
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ سالوں میں روپے کی قدر میں کمی اورڈالر ریٹ بڑھا، ہر کسی کو اس پر بات کرنی چاہیے کہ کہاں پالیسی خراب تھی، کہاں روک سکتے تھے، جب تک آپ خود تبدیلی لانے کیلئے پرعزم نہیں ہوں گے تو یہ پیروں کی بیڑیاں اور مضبوط ہوجائیں گی، ملک پہاڑوں، دریاؤں یا ریگستانوں سے نہیں انسانوں سے بنتا ہے۔
میاں عامر محمود نے کہا کہ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ملک ترقی کرتے ہیں، آج مڈل ایسٹ میں دبئی کے پاس سب سے کم تیل ہے اور سب سے زیادہ ترقی اس نے کی، اس لئے ہم انفرادی طور پر ہر ایک شخص سے بات کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کے پاس اتنا بڑا سوشل میڈیا کا میدان موجود ہے، آپ سوشل میڈیا پر بات کریں اور ہیش ٹیگ بنائیں، سوشل میڈیا پر نئے صوبوں کی بات کریں گے تو لوگ آپ کی آواز بنیں گے، یہ نہیں کہتا کہ یہ کام نہیں ہوسکتا آپ مل کر کریں گے تو ضرور ہوگا۔
پیپلزپارٹی کہتی ہے صوبے بننے چاہئیں لیکن سندھ میں نہیں
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے بھی کہا تھا ہر ڈویژن کو صوبہ بنائیں، پیپلزپارٹی کہتی ہے صوبے بننے چاہئیں لیکن سندھ میں نہیں، پیپلزپارٹی بات کرتی ہے ووٹ لیتی ہے اور بھول جاتی ہے، نیا صوبہ بنانے سے آج تک کسی کا نقصان نہیں ہوا بلکہ آمدن میں اضافہ ہوا ہے۔
میاں عامر محمود نے بتایا کہ چانس بھی ہم نے خود پیدا کرنا ہے اور آگے بھی خود بڑھنا ہے، دنیا میں کئی ممالک کے پاس کچھ نہیں تھا خود کوشش کر کے اپنے آپ کو بدلا، پاکستان میں کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے زندگی کو مشکل حالات میں شروع کیا، آپ نے خود اپنے لئے کچھ کرنا ہے، آپ جب ملک کیلئے کچھ کریں گے تو سب آپ کے ساتھ شامل ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ کہنے اور چاہنے میں فرق ہے، حکومت میں آنے کے بعد اس طرح کا پبلک پریشر رہتا ہی نہیں، حکومت آنے کے بعد عوام اس کو چیک ہی نہیں کرتی، جو لیڈر ناکام ہو رہا ہوتا وہ آپ کو ذہنی، جذباتی یا مذہبی نعرے کی طرف لگا دیتا ہے، ہمیں کسی دوسرے کو ٹھیک کرنے کے بجائے خود کو ٹھیک کرنا ہے۔
ہمیں اپنے گورننس کے ماڈل پر غور کرنا ہوگا: پروفیسر ڈاکٹر چودھری عبدالرحمان
قبل ازیں چیئرمین ایپ سپ پروفیسر ڈاکٹر چودھری عبدالرحمان نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ رول ماڈل بننے کیلئے آپ نے کسی کو اپنا رول ماڈل بھی بنانا ہے، نبی پاکﷺ جو چیز لائے وہ دیرپا تھی، نبی پاکﷺ کا لیڈر شپ ماڈل سب سے بہتر تھا، نبی پاکﷺ اللہ پر یقین رکھتے تھے، صادق اور امین تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے گورننس کے ماڈل پر غور کرنا ہوگا، میاں عامرمحمود کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس جانب توجہ دلائی، میاں عامر محمود قوم کے وہ محسن ہیں جنہوں نے پاکستان کو 400 کالجز کا تحفہ دیا اور ملک کو 3 بہترین یونیورسٹیاں دیں۔
پروفیسر چودھری عبدالرحمان نے کہا کہ پورے پاکستان کی جانب سے میاں عامرمحمود کا شکریہ ادا کرتا ہوں، سب دیکھیں گے کہ چھوٹے صوبے بنیں گے، نئی قیادت بنے گی، سکول اور کالجز بنیں گے۔