استنبول ۔۔۔ دنیا کا ایک منفرد شہر

لاہور: (بی بی یو ورلڈ نیوز اردو) استنبول دنیا کا وہ واحد شہر ہے جسے کئی حوالوں سے انفرادیت حاصل رہی ہے، دو براعظموں پر پھیلا یہ دنیا کا واحد شہر ہے، اس کے ایک طرف یورپ ہے تو دوسری جانب ایشیا ہے، مورخین اسی لئے اس شہر کو ایک ایسا ثقافتی اور جغرافیائی پل قرار دیتے ہیں جو مشرق اور مغرب کے درمیان پھیلا ہوا ہے۔
دراصل بنیادی طور پر تو یہ آبنائے باسفورس ہی ہے جس نے ترکی کے یورپی حصے اور ایشیائی حصے کو جدا کر کے یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک سرحد قائم کر رکھی ہے، اس آبنائے کو ’’آبنائے استنبول‘‘ بھی کہا جاتا ہے، یہ آبنائے اگرچہ دنیا کی سب سے تنگ آبنائے ہے جو بحیرہ اسود کو بحیرہ مرمرہ سے ملاتی ہے، یہ بین الاقوامی جہاز رانی کی ایک گزرگاہ کے طور پر بھی استعمال ہوتی ہے۔

یہ تاریخ کا واحد خطہ ہے جو لگاتار مسیحی اور اسلامی سلطنتوں کا دارالحکومت رہا ہے، یہی نہیں بلکہ یہ یوں بھی منفرد شہر ہے کہ مختلف ادوار میں اس کے نام بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہے ہیں، اس شہر کو 658 قبل مسیح میں یونانیوں نے ’’بازنطیوم‘‘کا نام دیا تھا (جو بعد میں بگڑتے بگڑتے بازنطینیہ بن گیا تھا) جو یہاں کے میگارا آباد کاروں نے دیا تھا، عمومی روایات کے مطابق یہ نام ایک مقامی نام ’’بیزاس‘‘ سے ماخوذ ہے جو یونانی اساطیر کا ایک کردار تھا۔

پھر 330 عیسوی میں مشہور رومن بادشاہ کانسٹینٹائن نے اسے قسطنطنیہ کا نام دیا، 1453 عیسوی میں جب مسلمانوں نے قسطنطنیہ فتح کیا اور شہریوں کی عام معافی کا اعلان ہوا تو اس کے نام کو استنبول میں بدل دیا اور یوں یہ شہر دنیا کے تین براعظموں پر پھیلی عظیم الشان سلطنت عثمانیہ کا پایہ تخت قرار پایا، اس شہر کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جسے پانی نے تین حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، ایک حصہ ایشیا ، دوسرا حصہ یورپ میں جبکہ درمیان میں شاخ زریں حائل ہے جو جزیرہ نما کے ساتھ منسلک ایک قدرتی بندر گاہ ہے۔

یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جس نے دو براعظموں یورپ اور ایشیا میں اپنے پاوں جمائے اور ایک دارالحکومت کا اعزاز حاصل کیا اور چار سلطنتیں یعنی رومن، بازنطینی، لاطینی اور عثمانیہ سلطنت، جنہوں نے پانچ سو سال تک اس شہر کو بطور ایک دارالحکومت اختیار کئے رکھا۔

استنبول ایک قدیم تاریخی شہر ہے جس کی جڑیں 685 قبل مسیح کے آس پاس پائی جاتی ہیں، جب یونانیوں نے پہلی بار اس کے مشرقی حصے کو آباد کیا تھا، اس کے بعد بازنطینیوں نے 668 قبل مسیح میں اس کے مغربی حصے کو آباد کیا، مغربی حصے کی آبادکاری کے بعد جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے اس کی اہمیت اور بڑھ گئی۔

جغرافیائی طور پر استنبول، ترکی کا سب سے بڑا شہر ہے جو اناطولیہ کے شمال میں واقع ہے، یہ بحیرہ اسود اور بحیرہ مرمرا کو مربوط کرنے والے آبنائے باسفورس کے دونوں اطراف پر واقع ہے، اس کا کل رقبہ 5220 کلومیٹر ہےجبکہ اس کی کل آبادی ایک کروڑ 55 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔

استنبول ایک طویل عرصہ تک متعدد قدیم سلطنتوں کا دارالحکومت رہا ہے تو یہ بات واضح ہے کہ اس کی تعمیرات میں ان تہذیبوں کی ثقافت کے آثار کی جھلک نمایاں طور پر نظر آتی ہے، مثال کے طور پر فینی شسین بندرگاہ کے آثار کانسی دور سے ملتے ہیں جبکہ میڈن ٹاور 408 قبل مسیح میں یونانیوں کے عہد میں تعمیر ہوا تھا، کہتے ہیں میڈن ٹاور 408 قبل مسیح میں شہر کو حملہ آور بحری جہازوں سے بچانے کیلئے ایک وسیع ٹاور کے طور پر بنایا گیا تھا۔
قسطنطنیہ کا رومن عمود اور قسطنطنیہ کا عظیم محل رومن شہنشاہ قسطنطین اوّل نے تعمیر کیا تھا۔ اس شہر کی لازوال اور سٹیٹ آف دی آرٹ عمارات کی تعمیر کے لحاظ سے بازنطینی دور سب سے سنہرا دور تھا، استنبول شہر کی سب سے نمایاں وراثت جو بازنطینی شہنشاہ جسٹینئن اوّل کے دور کی کاوش تھی وہ چرچ آیا صوفیہ تھا جو سب سے اہم زندہ بچ جانے والی بازنطینی یادگاروں میں سے ایک تھی۔

آج استنبول ایک وسیع و عریض رقبے اور ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی والا ایک پرکشش شہر ہے جو چاروں اطراف سے آبی گزرگاہوں کے نیٹ ورک میں گھرا یورپ کا سب سے بڑا شہر ہے، یہ شہر سات پہاڑیوں پر بسا ہوا ہے،جس میں بازنطینی محلات، خوشنما اور پروقار عثمانی مساجد سے لے کر آرمینیائی طرز کے اوپیرا ہاوسز، اینگلیکن گرجا گھروں ، جدید اور قدیم آرٹ کے نمونوں سے مزین عجائب گھر ہر آنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔

اس شہر کی خوبصورتی میں جدید اور قدیم کے حسین امتزاج کا بڑا دخل ہے، یہاں اگر آپ کو ایک طرف راتوں کو جاگتے کلب نظر آتے ہیں تو دوسری طرف شہر کی اونچی نیچی پتھریلی گلیوں میں لکڑی کی گاڑیوں کو دھکیلتے ریڑھی بان بھی نظر آئیں گے، تبھی تو ایک مغربی سیاح نے اس شہر کے بارے کہا تھا ’’یہاں ماضی ، حال ، یورپ اور ایشیا سب یکجا ہے ‘‘۔

استنبول کو سیاح عام طور پر ’’فیروں کا شہر‘‘ بھی کہتے ہیں، دراصل باسفورس کے چمکتے پانیوں پر فراٹے بھرتی فیریوں نے یہاں کے سیاحوں کیلئے جہاں ذرائع آمدورفت میں آسانیاں پیدا کی ہیں وہیں انہی فیریوں نے استنبول کے ماضی اور حال کو انتہائی خوبصورتی سے جوڑ بھی رکھا ہے۔

استنبول کی تاریخ میں ان فیریوں کا کردار بہت تاریخی رہا ہے، کیونکہ فیریز بڑی آسانی سے مسافروں کو دور دراز کے محلوں میں بھی لے جا سکتی ہیں جہاں زمینی راستے کے ذریعے جانا دشوار ہوتا ہے، کہتے ہیں بہت سارے عثمانی سلطانوں نے متعدد بار یورپ اور ایشیاء کو ملانے کیلئے باسفورس کے پار ایک بڑے پل کی تعمیر کا ارادہ بھی کیا تاکہ آنے جانے کا مسئلہ مزید سہل ہو جائے لیکن ہر مرتبہ یہ منصوبہ التوا کا شکار ہوتا رہا، حتی کہ جب سیاحوں کی تعداد میں روزافزوں اضافہ دیکھا گیا تو 1973ء میں دونوں براعظموں کو باسپورس کے آر پار ایک پل سے ملا دیا گیا۔

سیاح، فیری سروس کو اس لئے بھی اپنی ترجیح میں شامل کرتے ہیں کہ بقول ان کے فیری کے اوپر والے ڈیک سے شہر کی وسعت اور اس کی خوبصورتی کا صحیح اندازہ لگایا جا سکتا ہے، یوں تو استنبول کا چپہ چپہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے لیکن یہاں آیا صوفیہ مسجد، قسطنطنیہ کے ہپو ڈروم اور توپ کاپی محل کی سیر کے بغیر سیاحوں کی سیاحت نامکمل رہتی ہے، اسی لئے ان مقامات پرسارا سال دنیا کے کونے کونے سے آئے سیاحوں کا جمگٹھا رہتا ہے۔

بیشتر سیاح پانی کے راستے استنبول آتے ہیں کیونکہ انہیں پانی کے ذریعے ایک ساتھ بہت سارے تاریخی مقامات دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے، ان میں ڈولما بہس محل، چوبیس صدیاں قدیم میڈن ٹاور اور منفرد فن تعمیرکا حامل قدیم حیدر پاشا ریلوے سٹیشن قابل ذکر ہیں۔

آیا صوفیہ (حاجیہ صوفیہ ) ایک سابق مشرقی آرتھوڈوکس گرجا گھر ہے جسے 1453 عیسوی میں فتح قسطنطنیہ کے بعد عثمانی ترکوں نے مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔

استنبول کو مساجد کا شہر بھی کہا جاتا ہے، سلطنت عثمانیہ کا تخت ہونے کی وجہ سے اس شہر میں عثمانی دور کے سلاطین اور دیگر حکومتی عہدیداروں نے جگہ جگہ مساجد تعمیر کرائیں، ماضی میں سلطنت عثمانیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے آج بھی استنبول میں جا بجا اس دور کی تاریخی عمارتیں موجود ہیں، قدیم روایات کو برقرار رکھتے ہوئے استنبول کے بیشتر مقامات پر آج بھی مختلف تہواروں پر سلطنت عثمانیہ کے دور کی موسیقی اور دھنیں بجتی نظر آتی ہیں۔

استنبول کے مضافات میں نو چھوٹے چھوٹے جزیرے موجود ہیں جو سارا سال سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں، ایک سیاح نے استنبول کے دورے سے واپسی پر ایک مرتبہ کہا تھا ’’میں جب استنبول آیا تو سوچا تھا واپس جا کر یہاں کے تاریخی اور ثقافتی مقامات پر ایک مضمون لکھوں گا ، لیکن اب سوچتا ہوں کہ یہ سب ایک مضمون تو درکنار شاید ایک کتاب میں بھی نہ سما سکیں‘‘

اپنا تبصرہ لکھیں