آئینی بنچ نے قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف دائر نظرثانی درخواست خارج کر دی

اسلام آباد: (بی بی یو ورلڈ نیوز اردو) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر نظرثانی درخواست خارج کر دی۔

سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تعیناتی نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 6 رکنی آئینی بنچ نے آئینی کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ نظرثانی درخواست ہے، کیس کو دوبارہ نہیں کھول سکتے جس پر درخواست گزار کے وکیل ریاض حنیف نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھٹو کیس بھی 40 سال بعد سنا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ فورم سیاسی تقاریر اور نہ بیک بائٹنگ کا ہے، قانون سے نہیں ہٹ سکتے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ غصے میں کیوں آ رہے؟ عدالت کی بات سنیں۔

جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ عدالت آپ سے سوالات پوچھ رہی لیکن آپ جواب کیوں نہیں دے رہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کیس دوبارہ کھولنا چاہتے ہیں؟ جس پر درخواست گزار وکیل ریاض حنیف نے جواب دیا کہ میں عدالت کو حقائق بیان کر رہا ہوں، میرے پاس ریکارڈ نہیں لیکن بلوچستان سے ریکارڈ منگوایا جا سکتا ہے۔

کیسز میں پرسنل نہ ہوا کریں، چھوڑ دیں قاضی صاحب کی جان: جسٹس مسرت ہلالی

جسٹس امین الدین نے کہا کہ قانون بتائیں کہ وزیراعلیٰ کے ساتھ مشاورت کیسے ضروری ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ کیسز میں پرسنل نہ ہوا کریں، چھوڑ دیں قاضی صاحب کی جان۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایسی درخواست پر بنچ کے سربراہ سے درخواست کروں گا کہ معاملہ پاکستان بار کونسل کو بھیجیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ مقدمات میں ذاتیات پر نہیں آتے، یہ مقدمہ قانونی کم اور سیاسی زیادہ لگ رہا ہے، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

بعدازاں عدالت عظمیٰ کے آئینی بنچ نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر نظرثانی درخواست خارج کر دی۔

پی ڈی ایم حکومت میں قانون سازی کو غیرآئینی قرار دینے کی درخواست بھی خارج

اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت میں قانون سازی کو غیر آئینی قرار دینے سے متعلق درخواست جرمانے کے ساتھ خارج کر دی۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 6 رکنی آئینی بنچ نے سماعت کی، درخواست محمود اختر نقوی ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔

عدالت نے پی ڈی ایم حکومت میں قانون سازی کو غیر آئینی قرار دینے سے متعلق درخواستیں 20، 20 ہزار جرمانے کے ساتھ خارج کر دیں۔

غیر ملکی اثاثوں، بینک اکاؤنٹس کیخلاف درخواست جرمانے کیساتھ خارج

سپریم کورٹ نے غیر ملکی اثاثوں و بینک اکاؤنٹس کیخلاف درخواست 20 ہزار جرمانے کیساتھ خارج کردی۔

آئینی بنچ کے رکن جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، الیکشن کمیشن غیر ملکی اکاؤنٹس و اثاثوں پر قانون سازی کیسے کر سکتا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ درخواست گزار مشتاق اعوان نے درخواست میں کوئی قانونی بات نہیں کی، جس پر درخواست گزار نے کہا کہ میرا مؤقف ہے غیر ملکی اثاثوں یا بینک اکاؤنٹس پر الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ اس معاملے پر قانون سازی کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے، کن لوگوں کے غیر ملکی اثاثے یا بینک اکاؤنٹس ہیں کسی کا نام نہیں لکھا۔

عدالت نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے کا نہیں کہہ سکتے، اس معاملے پر قانون سازی کیلئے درخواست گزار اپنے حلقہ کے منتخب نمائندے سے رجوع کرے۔

اپنا تبصرہ لکھیں