خاموش رخصتیں! مردہ معاشرے کی گونجتی آہیں

لاہور: (بی بی یو ورلڈ نیوز اردو) حالیہ دنوں چند المناک واقعات نے ہمیں نہ صرف چونکایا بلکہ روح تک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔

کبھی سینئر اداکارہ عائشہ کی تنہائی میں بے بسی سے موت، کبھی نوجوان باصلاحیت لڑکی ثنا یوسف کا سفاکانہ قتل، کبھی فنکارہ حمیرا اصغر کی خاموش رخصتی اور کبھی ایک ٹک ٹاک ویڈیو بنانے پر ایک معصوم بچی کی جان کا چلے جانا، یہ سب محض خبریں نہیں بلکہ ایک مردہ ہوتے معاشرے کی گونجتی ہوئی آہیں ہیں۔

ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں انسان کی سب سے بڑی دشمن تنہائی بن چکی ہے، ماضی میں جو تنہائی کبھی ذاتی سکون اور خود شناسی کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی آج وہی تنہائی دہشت، بربادی اور خاموش اموات کا سبب بن رہی ہے۔

رشتوں میں دراڑ اور جذباتی بانجھ پن، گھروں میں بولتی خاموشیاں اور اپنوں کا اجنبی بن جانا یہ سب ہمارے جذباتی زوال کی علامتیں ہیں، ماں باپ مصروف، اولاد اپنی دنیا میں، شوہر صرف ضرورتوں تک محدود اور بہن بھائیوں کے درمیان فاصلوں کی دیواریں یہی وہ خلیجیں ہیں جو جنریشن گیپ، عدم برداشت اور محبت کی کمی کو جنم دیتی ہیں۔

خاص طور پر بیٹیاں! ان کے لیے تو یہ معاشرہ ایک مسلسل سوال بن چکا ہے، بیٹیاں قربانی نہیں زندگی کی حقدار ہیں، ہر بیٹی اپنے خواب، اپنی خواہشات، اپنی ترجیحات رکھتی ہے، وہ صرف بیٹی، بیوی یا ماں نہیں بلکہ ایک مکمل انسان ہے جسے اپنی شناخت کے ساتھ جینے کا حق ہونا چاہیے۔

بدقسمتی سے جب بیٹی اپنے جذبات کا اظہار کرتی ہے تو اکثر اسے حساس، ڈرامائی یا بے کار کہا جاتا ہے، وہ خاموش ہو جاتی ہے اور وہی خاموشی ایک دن اسے نگل لیتی ہے۔

سوشل میڈیا نے اس تنہائی کو مزید گہرا کر دیا ہے، لاکھوں فالوورز رکھنے والے لوگ جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو کئی دن تک کسی کو خبر تک نہیں ہوتی، یہ وہ دنیا ہے جو بظاہر connected ہے، مگر اصل میں disconnected روحوں کا جنگل بن چکی ہے، ہر دلکش تصویر کے پیچھے ایک تھکا ہوا، بکھرا ہوا، اور ٹوٹا ہوا انسان چھپا ہوتا ہے۔

ہماری روحانی تنزلی کی جڑ دین سے دوری ہے، اسلام نے رشتوں کی قدر کو ایمان کا حصہ قرار دیا، بیٹی کو رحمت کہا اور انسانوں کے درمیان محبت، قربت اور ذمہ داری کو لازمی گردانا مگر ہم نے دین کو رسومات تک محدود کر دیا، دلوں سے رشتہ توڑ دیا۔

حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے “مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے تنہا چھوڑتا ہے۔” (صحیح مسلم)

مگر ہم نے ایک دوسرے کو تنہا چھوڑ دیا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج بیٹیاں تنہا، والدین لاچار، نوجوان بے چین اور معاشرہ بے حس ہو چکا ہے۔

مجھے موت سے نہیں ایسی خاموش، لاوارث موت سے ڈر لگتا ہے جہاں کوئی پوچھنے والا نہ ہو، جنازے میں شامل ہونے والا نہ ہو اور لاش کئی دن بعد بے سرو سامانی میں ملے، کیا بیٹیوں کا، بزرگوں کا، ہم سب کا انجام یہی ہونا چاہیے؟ کیا ہم نے یہی معاشرہ تعمیر کیا تھا؟

اب بھی وقت ہے ہمیں واپس لوٹنا ہو گا، رشتوں کی طرف، دین کی طرف، انسانیت کی طرف، کسی کی خاموشی کو سنیں، کسی کے چہرے کو غور سے دیکھیں، ہوسکتا ہے وہ مدد کی آخری دہلیز پر ہو۔

ہم سب کو عہد کرنا ہوگا کہ بیٹیوں کو جیتے جی عزت، وراثت اور پہچان دی جائے، والدین کو بڑھاپے میں تنہا نہ چھوڑا جائے، نوجوانوں کی بات سنی جائے، ان کے جذبات کو سنجیدگی سے لیا جائے اور سب سے بڑھ کر ایک دوسرے کی موجودگی کو محسوس کیا جائے۔

اپنا تبصرہ لکھیں